
تخلیق کے مرحلے میں داخل ہو تے ہی عورت فخر و انبساط کے عروج کی منازل کچھ ایسے طے کرتی ہے کہ “پاؤ ں بھاری” تو کیا وہ “خود” کو ہی بہت بھاری محسوس کر نے لگتی ہے۔ اپنے آ پ پر فخر کرتی ہے ۔ اپنی ان دیکھی تخلیق کے تصور سے ہی پھول پھول بیٹھتی ہے۔گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ احساسات اور جذبات کی نئ دنیا کے نئے دریچے وا ہونے لگتے ہیں اور وہ خیالوں ہی خیالوں میں آ نے والے کو اپنا دل دے بیٹھتی ہے۔ محبت کا بحر بیکراں جب ٹھاٹھیں مارتا ہے تو خیالات کی ایک عجب سی دنیا بساتی ہے اور
ایسے میں اسکا ہمسفر ہر قدم پر اس کےساتھ ہوتا ہے۔ آ نے والے کے نام سے لے کر ، استقبال کی جگہ کا تعین خوب گرم جوشی کے ساتھ کیا جاتاہے۔ “اس” کے آ نے سے پہلے ہی اپنا وقت ، محبت، پیسہ، خوشیاں ، آ س، مراد، غرض کہ ہر دکھنے اور نہ دکھنے والی چیز اس کے نام لگا دی جاتی ہے جسے نہ ابھی آ نکھوں نے دیکھا ہے اور نہ ہاتھوں نے چھوا ہے، لیکن یقین واثق ہے کہ آ نے والا سب سے پیارا، سب سے اچھا ، سب سے مہذب ، سب سے قیمتی ہو گا اور وہ ہوتا بھی ہے
ہر بچہ اپنی ذات میں اللّہ پاک کی خوبصورت اور منفرد ترین تخلیق ہے ،صلاحیتوں کا ناقابل پیمائش سمندر ہے، والدین کی آ نکھوں کا تارا اور انکی پوری دنیا ہے ۔ اور اگر معاشی لحاظ سے سوچا جائے تو قیمتی ترین قدرتی وسیلہ ہے۔ جسکی سوچ ، سمجھ ، ذمہ داری ، محبت اور لگن سے پرورش کی جائے تو اس سے نفع بخش سرمایہ کاری اورکوئ نہیں، یہ بڑھاپے کامضبوط سہارابن جاتا ہے، تنہائ میں مخلص ترین دوست بن جاتا ہے ، تنگدستی میں قدرتی وسیلہ روزگار بن جا تاہےاور تو اور نہ دیکھ پائیں تو یہ آ پکی آ نکھیں ، نہ بول پائیں تو یہ آ پکی آ واز، نہ سن پائیں تو یہ آ پکے کان ، نہ سمجھ پائیں تو یہ آ پکا استاد ۔
تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اتنی نفع بخش سرمایہ کاری کو اتنا ہلکا کیوں لیا جاتاہے؟ یا پھر یہ کہ جوان ہو جانے کے بعد تمام بچے نہ تو بڑھاپے کا سہارا بنتے ہیں، نہ والدین کی دیکھ بھال کرتے ہیں، نہ انکو وقت دیتے ہیں ، نہ ہی مالی لحاظ سے انکی کوئ زمہ داری لیتے ہیں۔
وجہ؟؟ بہت آ سان
تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ایسا کیا ہوتا ہے کہ وہ جو دنیا میں سب سے ذیادہ عزیز ہوتا ہے حلق کا کانٹا بن کے چبھنے لگتا ہے؟ وہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کو دل و جان کی بے تابیوں کے آ گے آ سمان کی وسعتیں اور سمندروں کی گہرائیاں کم لگتی تھیں آ ج وہ سامنے بیٹھتا ہے تو دل ہول ہول جاتا ہے۔،
جس کے منہ سے نکلنے والی ہر آ واز دل میں خوشیوں کے نئے سر چھیڑ جاتی تھی آ ج جب وہ بولتا ہے تو بوڑھی ماں پوری جان سے کانپ جاتی ہے اور دل سے صدا دیتی کہ کاش یہ اب نہ بولے۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہم کیوں یہ نہیں مان لیتے کہ یہ چینختا ، چلاتا ، بے حس اور بد لحاظ نوجوان نتیجہ ہے ان تمام کوتاہیوں کا جو ہم سے اس کی پرورش میں ہوئیں، کبھی ہم فکر روزگار اور بیرونی سرمایہ کاریوں میں اتنے مصروف ہوگئے کہ بچے کی زندگی میں اپنے اس وقت کی اہمیت کا ادراک ہی نہ کر پائے ۔ دنیا مکافات عمل کا دوسرا نام ہے، یہاں جو بویا ہے وہی کاٹناہے۔ کانٹے بیج کر پھولوں کی تمنا کرنے میں قطعاً کوئ منطق نہیں۔
از مکافات عمل غافل مشو
گندم از گندم برو ید جوز جو
والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچے کی پرورش ایک ہمہ جہتی کاوش کا نام ہے۔
جسکے قدموں میں دنیا بھر کی خوشیاں ڈھیر کرنے کیلے آ پ دن رات ہلکان ہو رہے ہیں اس کی ضروریات کو پوری طرح سمجھ لینے سے قاصر رہتے ہیں۔
اسکی کھانے پینے اور دیگر طبیعی ضروریات کے ساتھ بہت ساری دیگر ضروریات بھی اتنی ہی بلکہ کچھ ذیادہ اہم ہیں ، کیونکہ طبیعی ضروریات کو تو بچہ خود بھی سمجھتا ہے اور ان کا مطالبہ کر کے جلد یا بدیر ان کو حاصل بھی کر لیتا ہے۔ لیکن بچے کو ایک مکمل اور پر اعتماد شخصیت بنانے کے لیے جو دوسری ضروریات اور لوازمات پرورش کے ساتھ منسلک ہیں انکا کیا؟؟
یاد رکھیں!! جسمانی اور مالی ضروریات کے ساتھ آ پکے بچے کو درج ذیل چیزوں کی بھی اتنی یا اس سے ذیادہ ضرورت ہے
نفسیاتی معاونت
معاشرتی معاونت
زبانی معاونت
حسی معاونت
چاہنا اور چاہے جانا انسان کی فطرت اولین میں سے ہے کہ
نالندہ تیرے عود کا ہر تار ازل سے
تو جنس محبت کا خریدار ازل سے
بچوں کو” جادو کی جپھی دینا “ہرگز نہ بھولیں ۔ یہ طبیعی محرک کی ایسی طاقتور خوراک ہے کہ جو بچے کو خود اعتمادی سے بھر پور کردیتی ہے، وہ اپنی ذات ، اپنے وجود، اور اپنے خاندان سے ایک الگ طرح کی محبت کرنے لگتا ہے۔ روح پیار کی تاثیر سے بھر سی جاتی ہے اور یوں تکمیل ذات کا یہ ایک پہلو حسن اختتام سے کو پہنچ جاتا ہے۔
طبیعت میں مثبت اور تعمیری رحجانات پیدا ہوتے ہیں، اپنے پیاروں کے لیے کچھ کر دکھانے کی کسک پیدا ہو جاتی ہے اور یہی کسک کامیابی کی طرف لے جانے والا پہلا زینہ ہے۔
ایک پر اعتماد اور مکمل شہری کی حیثیت سے معاشرے میں قدم رکھنے کے لیے بچے کو ایک بار پھر والدین اور ارد گرد موجود بڑوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کی شخصیت کے اس پہلو کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ماحول میں محفوظ محسوس کرے۔ گھر کا ماحول اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے۔ گھر میں اس طرح کا ماحول پیدا کرنا جس میں ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایا جاتا ہو، ڈانٹ ڈپٹ اور طعن و تشنیع کا ماحول نہ ہو، جسمانی تشدد اور دھونس کی کوئ گنجائش نہ ہو اور پھر اس بات کو یقینی بنانا کہ بچہ ابتدا میں جس ماحول (سکول) میں بھیجا جائے وہ بھی حفاظت سےبھر پور ہو، عام مشاہدے کی بات ہے کہ بچوںکو انتہائی چھوٹی عمر سے ہی طعن و تشنیع یا ماں باپ کے جھگڑوں کی صورت میں آ لودہ اور نامناسب ماحول کاسامنا کرنا پڑتا ہے، گھر سے لے کر سکول تک بچے دھونس کا شکار رہتے ہیں
تم خود سمجھتے کیا ہو؟
شہزادے ہو تم؟
نخرے تو دیکھو ۔
!نا لائق کہیں کا
تم زندگی میں کبھی کچھ نہیں کر سکتے
اور ان سب کے ساتھ دو چار تھپڑ جو کہ بہت سے اساتذہ اور والدین اپنا مذہبی، قانونی اور معاشرتی حق سمجھتے ہیں اور ان کے تباہ کن نتائج سے لا علم ہیں۔یہ وہ عوامل اور غیر موزوں ماحول ہے جس میں بچے کی صلاحیت دب کر رہ جاتی ہے، وہ عدم اعتماد اور عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا، جرات اظہار ختم ہو جاتی جو آ گے زبانی مہارتیں سیکھنے اور ان کے پنپنے کے لیے بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔
بچے کو بات چیت کے انداز اور مہارتیں سکھا نا گھر اور سکول دونوں کی ذمہ داری ہے۔ بامعنی مکالمے کی عادت گھر اور سکول دونوں کی روٹین کا حصہ ہونی چاہیئے ۔ پر کیا کیا جائے کہ گھر میں ماں اور باپ خود ساختہ مصروفیات کے جال میں کچھ ایسے الجھے کہ جو اہم ترین تھا وہ غیر اہم ہو گیا۔ مخصوص جملوں
کیسے ہو بیٹا؟
پڑھائ ٹھیک جا رہی ہے؟
کیا کھاؤ گے؟
بس اس طرح کے رسمی جملوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور رہا سکول ، اس میں تو پورا دن بورڈ کو بھرتے اور صاف ہوتے دیکھنے میں ہی نکل جاتا ہے۔ یا پھر کبھی کبھی استاد صاحب کی ہدایات اور نصائح سے بھری تقریر سننے کو ملتی ہے۔
جب کہیں بھی بحث و مباحثہ کا ماحول نہیں ملے گا ، بامعنی اور حقیقی زندگی کے اتار چڑھاو پر مبنی گفتگو اور مکالمہ نہیں ہو گا تو بچے کو اپنی بات موثر میں انداز میں کہنے، اور متعلقہ دلائل دینے کی تربیت بھی حاصل نہیں ہو گی جس کے نتیجے میں اس کی شخصیت کے اندر ایک کبھی نہ پر ہونے والا خلا پیدا ہو جائے گا جو بعد میں بہت سے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
یہاں پر اگر کوئ یہ کہے سکول میں ہونے والے تقریری مقابلہ جات اور اردو اور انگریزی مباحثے اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں تو یہاں پر نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان مقابلہ جات تک رسائ بھی انہی چند طلبا و طالبات کو ملتی ہے جن کو پہلے ہی سے تکلم پر عبور حاصل ہوتا ہے۔
بولنے ، سننے اور لکھنے کے ساتھ دیگر حسیات کو استعمال میں لانا سکھانا بھی بچے کی تعلیمی اور تربیتی ضروریات کا ایک اہم حصہ ہے۔ اپنے ارد گرد اشیا، افراد
اور ماحول کو مشاہدے کی آ نکھ سے دیکھنا، اندازہ لگانا اور آ گے کا لائحہ عمل طے کرنا سکھانا بچے کے تربیتی مراحل کا ایک اہم جزو ہے جو عملی زندگی میں اسکے کامیابی کے ساتھ آ گے بڑھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتاہے۔ بچوں کے لیے وقت نکالیں روزانہ نہیں تو ہفتے میں دو سے تین بار انکے ساتھ کسی بھی موضوع پر بات کریں ، انہیں اپنی بات کہنے اور دلائل دینے کا بھر پور موقع دیں ۔ انکے نقطہ نظر / رائے کو احترام دیں
Open mindedness
کی طرف جانے والا راستہ یہیں سے ہو کر گزرتا ہے ، بچہ دوسروں کی بات کو سننے ، سمجھنے اور اختلافات کے باوجود ان کو قبول کرنے کی مہارت کو سیکھتا جو آ گے چل کر اس کے ذمہ دار اور معقول شہری ہونے کی دلیل ہے۔
بچوں کی پرورش کے آ داب و اطوار پر بہت تحقیق بھی ہوئ، بہت کچھا لکھا اور کہا جا چکا ہے اس سب کو اگر مختصر الفاظ میں سمیٹا جائے تو یہ کہنا ہی کافی
بچوں کی پرورش
ایک بھاری زمہ داری ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آ پ ایک فصل اگاتے ہیں ، بیج بونے کے ساتھ ہی آ پکی ذمہ داریاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، اپنی فصل کی محبت اور ہوشیاری کے ساتھ آ بیاری کرنا،سردی گرمی جیسے بیرونی عوامل کی شدت سے محفوظ رکھنا ،فصل کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا، نشوونما کے لیے بہترین ماحول فراہم کرنا یہ سب والدین اور معاشرے کی اولین ذمہ داری ہے اور یقین مانیں ، محنت ، لگن ، ہوشیاری اور محبت سے پروان چڑھی یہ نسل آ پکی عمر بھر کے لیے نفع بخش ترین سرمایہ کاری ثابت ہو گی ۔
ہمارے بچے ہمارا قیمتی ترین اثاثہ ہیں ۔ انکی پرورش میں کو تاہی اب نہیں کیونکہ ہماری سوچ کا محور ہیں ہمارے بچے، ہماری زندگی بھر کی کمائی ہیں ہمارے بچے، ہمارا فخر ہیں ہمارے بچے، ہماری روح کی تسکین ہیں ہمارے بچے، ہمارا آ ج ہی نہیں کل بھی ہیں ہمارے بچے اور سب سے بڑھ کر دل کے ٹکڑے ہیں
ہمارے بچے
فضامیں ہاتھ اٹھتے ہیں
صدا دل سے نکلتی ہے
!الہی
!اے میرے مالک
میرے حصے کی ساری دولت، نام اور منصب
تو انکے نام کردے، نام کردے یا الٰہی
مجھے وہ دن نہ دکھلانا کبھی جو
دیکھوں حزیاں انکے چہروں کو
میرے حصے کی ساری خوشیاں ، چاہتیں اور جیت
تو انکے نام لکھ دینا
کبھی جو طلب دیکھوں انکی نظروں میں کسی شے کی
تو میری ہرعبادت اور ہرنیکی کے بدلے میں
تو بھر نا انکی جھولی انکی چاہ سے پہلے
یہ بچے ، یہ میرے آ نگن کے ہنستے ، کھلکھلاتے پھول
تیری رحمت، تیرے ہی دم کرم سے ہیں
یہ” ٹکڑے میرے دل” کے❤️،❤️ تیری صناعی کے شاہکار
انہیں اوج ثریا تو عطا کرنا میرے رب